کہانیاں

تربیت

Training
Teachings
راشد کی عادت دن با دن بگڑتی جا رہی تھی اب تو اس نے سیگریٹ کے ساتھ چرس بھی لینا شروع کر دیا تھا۔
کئی بار مثیم صاحب نے دیکھا تھا لیکن ان کے سامنے آتے ہی وہ اتنی مہارت سے سیگریٹ چھپاتا تھا کہ انہیں خاموش ہونا پڑتا تھا۔
امیر زادے کی بے تکی حرکتیں دن با دن پروان چڑھ رہی تھیں۔ صاحب زادے اب راستے میں آتی جاتی لڑکیوں کو بھی چھیڑنے لگے تھے۔ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد لڑکیوں اور لڑکوں کا ایک وسیع گروپ بن گیا تھا جو دیر رات تک پارٹی انجوۓ کرتا تھا اور پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔
مکمل چھوٹ دی گئی تھی حد تو اس رات ہوئی جب رات کے دو بجے دروازے پر دستک ہوئی مثیم صاحب نے دروازہ کھولا اور ہکا بکا رہ گئے۔ راشد پورے نشے میں کسی لڑکی کے ساتھ اونگھ رہا تھا مثیم صاحب نے صائمہ بیگم کو آوازیں۔ آرہی ہوں بابا اتنا کہنا تھا کہ ان کی آواز حلق میں ہی اٹک گئی وہ قریب آئیں پہلے اپنے بیٹے کو پھر اس لڑکی کو اور پھر مثیم صاحب کو دیکھیں۔ صائمہ بیگم نے لڑکی کو سہارا دے کر پاس رکھے صوفے پر بیٹھایا اور مثیم صاحب نے راشد کو بٹھایا اور خود بھی سر پر ہاتھ رکھ کر چھوٹے صوفے پر بیٹھ گئے۔ لڑکی کے پرس سے مسلسل رنگ ٹون کی آواز آرہی تھی صائمہ بیگم نے پرس کھولا کر موبائل نکالا تو اسکرین پر ڈیڈ کالنگ چمک رہا تھا صائمہ بیگم نے موبائل مثیم صاحب کی جانب بڑھایا مثیم صاحب نے کال ریسیو کرتے ہیں اسپیکر آن کیا دوسری جانب سے غصے اور فکر سے ملے جلے تاثرات میں آواز ابھری کہاں ہو شفق وقت دیکھا ہے تم نے فوراً گھر آؤ۔
میں مثیم نقوی بول رہا ہوں آپ کی بیٹی ہمارے گھر میں ہے آ کر لے جائیں انہوں نے ایڈریس بتاتے ہی کال کاٹ دی۔
کچھ دیر بعد ثاقب صاحب اور خولہ بیگم ان کے دروازے پر کھڑی تھیں اس بار صائمہ بیگم نے گیٹ کھولا تو خولہ بیگم جھٹ بولیں کہاں ہے ہماری بچی۔ اندر آئیں اندر آتے ہی ان کی نظر صوفے کی جانب پڑی تو خولہ اور ثاقب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے خولہ بیگم نے اس کی جانب لپکی اور اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگی صائمہ بیگم گویا ہوئیں”دونوں نے شراب پی رکھی ہے نا جانے یہاں تک کیسے پہنچے”.
راشد اور شفق کی یونیورسٹی چھڑا دی گئی تھی اور ان کے موبائل بھی لے لیے گئے تھے۔
صبح بات جب گھر میں موجود لوگوں کو معلوم ہوئی تو راشد کے دادا نے کہا” جو کام تمہیں پہلے کرنی چاہیے تھی تم اب کر رہے ہو اگر پہلے ہی اس کی اچھی تربیت کرتے تو ایسا نا ہوتا۔
دونوں ہی اپنے گھر میں ادھم مچاۓ ہوۓ تھے دھمکی دے رہے تھے یہ کر لیں گے وہ کر لیں گے۔۔
راشد کو مثیم صاحب اپنے ساتھ آفس لے جانے لگے تھے لیکن وہاں بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا تھا فی میل ورکر کو الٹی سیدھی بات کہتا جس پر ایک فی میل نے اسے چمٹ مارا تو وہ اور بدتمیزی پر اتر آیا تھا سارے ورکر ایک جگہ ہو گۓ تھے لڑکی نے اس پر کیس بھی کر دیا تھا اگلے ہی روز پولیس والے مثیم صاحب کے گھر پر پہنچے تھے اور اسے لے کر تھانے آئے تھے۔ مثیم صاحب بھی ان کے پیچھے اپنی کار نکالتے تھانے پہنچے تھے معافی تلافی کے بعد وہ اسے لے کر گھر آۓ۔
اولاد کی غلطی ہو تو والدین کی تربیت پر ہی انگلی اٹھتی ہے اگر شروع سے ہی اچھے برے کی سمجھ دی جاۓ تو ایسے حالت پیدا نہیں ہوں تم نے چھوٹ دے کر اپنی ہی تربیت سے دشمنی مول لی ہے اس کی حرکتیں سدھرنے کا نام نہیں لے رہی ہے”راشد کے دادا شام کی چاۓ پیتے ہوۓ مثیم صاحب کو سمجھا رہے تھے جو بہت ہی پریشان تھے”. اپنی باپ کی بات سے انہیں تھوڑی تسلی ہوئی اور انہوں نے ایک دوست کی طرح راشد کے ساتھ رہنے لگے۔ راشد بھی کچھ بہتر ہو رہا تھا۔
شفق کے گھر والے بھی اسے لے کر کافی پریشان تھے ایسی باتیں چھپتی نہیں ہے خاندان والے طرح طرح کی باتیں کرنے لگے تھے پہلے تو ہر بات پر وہ غصہ کرتی اور خاندان والوں سے زبان درازی سے پر اتر آتی۔
ثاقب صاحب کے بڑے بھائی اور بھابھی ان سے ملنے آئے تھے بھابھی خولہ بیگم کو تسلی دے رہی تھیں اور سمجھا رہی تھیں اتنے میں شفق آئی اور بولنے لگی”آپ اپنی بیٹیوں کی فکر کریں میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ بدتمیزی کیے جا رہی تھی جس پر ثاقب صاحب نے اسے تھپڑ رسید کیا تو وہ گال میں ہاتھ رکھتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب بھاگی”.
بڑے بھائی نے کہاں اس کی اچھے سے تربیت کرو بولتے ہی وہ اٹھ کھڑے ہوۓ اور چلتے بنے۔
از قلم عائشہ_شکیل

About the author

الف نگری فیملی

ہم اپنے قارئین کو الف نگری میں خوش آمدید کہتے ہیں. ‘الف نگری’ کی بنیاد الله کی نگری, اقراء کا فلسفہ اور انسان کی اخلاقی اور معاشرتی اقدار ہے. ‘الف نگری’ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہمارے قارئین کوالله کے دین اور اس کی عظمت کے بارے میں,اقراء کے حکم کی روح سے سیکھنے کے بارے .میں, اور انسان کےمعاشرتی, سیاسی اور سماجی پہلوؤں پے مختلف تحریریں ملیں گی۔

سوشل میڈیا نے ہر فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی خوبیوں میں سے ایک سٹیزن جرنلزم کو فروغ دینا ہے یعنی اس نے ہر فرد کو نہ صرف صحافی بنا دیا ہے بلکہ اسے ادارتی و مالکانہ حقوق بھی عطا کر دیے ہیں۔ یہاں ہر فرد کو اپنی بات اپنے انداز میں کہنے کی آزادی ہے، اس ’آزادی‘ نے بہت خوبصورت لکھنے والوں کی ایک کھیپ پیدا کی ہے اور اسے لوگوں کے سامنے متعارف کروایا ہے۔ قلم کار تجربہ کار ہو یا اس نے اس دشت میں تازہ قدم رکھا ہو، سب کو قاری کی ضرورت ہے کہ قاری نہ ہو تو تخلیق کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے یہ کمی بھی دور کر دی ہے اور اب ہر لکھاری کے لیے ہزاروں قارئین دستیاب ہیں۔

ہم ہر طرح کے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں گے، قطع نظر اس کے کہ ان کے مخصوص نظریات و تصورات کیا ہیں اور کس مذہب و مسلک، طبقے یا مکتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہم قلم کاروں اور تمام قارئین کی آزادی رائے کا احترام کریں گے اور انہیں موقع فراہم کریں گے کہ وہ ہر موضوع پر اپنے مثبت اور تعمیری خیالات کا اظہار کرسکیں۔ اسلام، اسلامی علوم، تہذیب و تمدن کے علمی موضوعات کے علاوہ سیاست، ثقافت، معاشرت، معیشت نیز حالات حاضرہ اور تازہ واقعات پر متوازن اور بھرپور تبصرے اور جائزے پیش کیے جائیں گے تاکہ اسلام اور وطن عزیز کے بارے میں مثبت اور صحیح تصویر پیش کی جاسکے۔ دنیا کے ہر گوشے میں آباد اردو داں طبقہ ’الف نگری‘ کے ذریعے ایک دوسرے کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرسکتا ہے تاکہ ایک دوسرے کے بارے میں درست طور پر آگاہی ہوسکے۔ ہمارا کا مقصد معاشرے میں مثبت رویوں کو تحریک اور فروغ دینا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مختلف امور کے بارے میں واضح اور دو ٹوک رائے قارئین کے سامنے لائی جائے۔

ہم اپنے تمام قارئین کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ خود بھی مختلف مسائل پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں اور اس کے لیے ہر تحریر پر تبصرے کی سہولت کا استعمال کریں۔ جو بھی ویب سائٹ پر لکھنے کا متمنی ہو، وہ ہمارا مستقل رکن بن سکتا ہے اور اپنی نگارشات شامل کرسکتا ہے۔

بشکریہ!

الف نگری ٹیم

Add Comment

Click here to post a comment

عنوانات

عنوانات