پاکستان سے

آرٹیکل 370 کے بعد کا کشمیر

370
Article 370

میرا کشمیر آج پھر لہُو لہان ہے۔چاروں طرف دھوئیں کے بادل، ہر طرف بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور قتل و غارت کا راج، جنت نظیر وادی کشمیر، سراپا احتجاج۔۔بھارت نے حسبِ معمول انسانی حقو ق کی خلاف ورزی کی تمام حدود پار کر دِیں۔وادیِ کشمیر کے بچے سے لے کر بزرگ اور مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنی آزادی کے لئے سر بکف ہیں۔ گزشتہ 73سال کے عرصے میں لاکھوں کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چُکے ہیں۔مائوں نے اپنے نوجوان لختِ جگر آزادیِ جدوجہد میں قربان کئے۔اس بات کا کافی عرصے سے سوچ رہا تھا کہ ایک مختصر جائزہ پیش کروں کے آرٹیکل 370 کشمیر میں غیر فعال کرنے کے دو سال بعد  اب حالات کیسے ہیں اور یہ فیصلہ کس قدر غلط تھا۔ اس کے کشمیری عوام پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ کشمیری حرّیت پسند رہنماؤں ، کارکنوں پر ظلم و جبر کوئی نئی بات نہیں ۔ بلاشبہ، آزادی کی تحریک قید و بند کے بغیر آگے نہیں بڑھتی کہ ہر تحریک کو نشیب و فراز کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ تحریکِ آزادی جہدِ مسلسل کا نام ہےاوراس کے لیےغاصب قوّت سے نبرد آزما ہونا یقینی امر ، تو یہی صورتِ حال جمّوں و کشمیر کی تحریکِ آزادی اور اس سے وابستہ رہنماؤں ، کارکنوں کو بھی در پیش ہے۔تازہ صورتحال کے مطابق   بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ میں گذشتہ کئی ہفتوں  سے بھارتی فوج اور کشمیریوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحد یا لائن آف کنٹرول پر مینڈھر کے جنگلات میں جاری اس طویل جھڑپ میں اب تک بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس کے دو افسران سمیت نو فوجی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ پونچھ میں جاری جھڑپ کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کے بعد یہاں ہونے والی سب سے طویل اور بھارتی فوج کے لیے ہلاکت خیز جھڑپ ثابت ہوئی ہے۔ ہزاروں فوجیوں، درجنوں کمانڈوز، کئی ہیلی کاپٹروں اور ڈرونز کو استعمال میں لانے کے باوجود بھارتی  دہشت گرد فوج اب تک کسی بھی کشمیری کو شہید کرنے میں کامیاب نہیں ہو ئی۔ پونچھ ڈسٹرکٹ کے مختلف علاقوں میں بھارتی فوج کے 20 کے قریب اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ جموں و کشمیر میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات سے یہ واضح ہے کہ مودی سرکار حکومت کے پاس کشمیر کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں تشدد کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر میں سکون و سلامتی فراہم کرنے میں مودی سرکار حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ۔ قتل کے مسلسل واقعات افسوسناک ہیں۔ مقبوضہ جمّوں و کشمیر کی حرّیت قیادت جس طرح ایک عرصے سےپابندِ سلاسل ہےاور اس پر تیس سال پرانے مقدمات کھولے جار ہےہیں یا دہشت گردی میں مالی اعانت (Terror Financing) اور منی لانڈرنگ جیسے بے سروپا الزامات لگائے جا رہے ہیں، اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ کشمیری حرّیت قائدین جیلوں سے رہا نہ ہونے پائیں۔ افسوس ناک طور پر ان محبوس قائدین کے اہلِ خانہ کی جانب سے ان کے صحت کے حوالے سے مسلسل خدشات کے اظہار کے باوجود اس جانب کوئی توجّہ نہیں دی جا رہی۔ کشمیری قیدیوں کی سلامتی کے متعلق اگرچہ بے اطمینانی ہمیشہ ہی سے موجود رہی ہے۔مگر اس کورونا کی وبا کے بعد سے یہ بے اطمینانی اب انتہائی تشویش میں بدل چُکی ہے اور اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ وبا کی آڑ میں بھارت کی مختلف جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں، خاص طور پر قائدین کو نشانہ بناکر انہیں راستے سے ہٹانے کی ناپاک کوششیں شروع ہیں۔ جموں و کشمیر کے حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں، کشمیر اور کشمیریت دونوں خطرے میں ہیں۔جس کی اصل وجہ  اگست 2019 میں بھارت کی حکومت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے ریاست کی خودمختار حیثیت ختم کر دی تھی اور اسے جموں کشمیر اور لداخ ٹریٹریز میں بدل تقسیم کر کے براہ راست دہلی کے تحت کر دیا تھا۔اورمقبوضہ جموںوکشمیر میں اب کوئی جمہوریت نہیں ہے۔ یہاں کوئی  منتخب حکومت نہیں ہے بلکہ براہ راست نئی دہلی کی قابض حکومت ہے۔ براہ راست قاعدہ ان قوانین کے استعمال جو کشمیر کے لیے مخصوص ہیں ، جیسے پبلک سیفٹی ایکٹ اس قانون کے تحت فرد کو بغیر کسی جرم کے حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں کشمیر میں زمین خریدنے والوں کی کل تعداد صرف دو ہے ، آرٹیکل 35 کو ہٹانا ، جو کشمیر کے مستقل باشندوں کی وضاحت کرتا ہے ۔جب کہ زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔کشمیری پنڈت وادی میں واپس نہیں آئے۔ کیوں ایک شہری اور تعلیم یافتہ کمیونٹی ایسی جگہوں پر واپس  نہیں جانا چاہتی ہے جہاں کچھ نوکریاں ہوں اور اکثر انٹرنیٹ سروس نہ ہو۔یہاں تک کہ لداخ کی حیثیت میں تبدیلی اور یونین ٹریٹری کے نئے نقشوں کا اجراء وہاں چین کی جارحیت کا قریب ترین سبب معلوم ہوتا ہے۔بھارت کی مودی سرکار سرکار کی حکومت کی کشمیر میں دہشت گردی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ سالانہ شہادتوں میں دو گناہ اضافہ ہوا ہے یعنی شرع اموات 150 سے بڑھ کر 250 ہوگئی ہے۔جبکہ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں پچھلے دو سالوں سے کوئی ترقی نہیں ہوئی۔اس370 اور 35 آرٹیکل کے اقدام  نے مسئلہ کشمیر میں عالمی دلچسپی کو دوبارہ متحرک کیا۔دیگر عالمی ادارے ، بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق ایسے امریکی کمیشن نے بھی بھارت پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے کہ 2019 کے بعد کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔

لداخ میں چین کی مداخلت کے بعد بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانا چھوڑ دے اور بھارت آجکل پاک بھارت سرحدوں کی خلاف ورزی میں بھی کمی کر کے پورے دھیان سے چین سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔اور مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر وقتی طور پر سرحدوں پر جنگ بندی کا خواہاں ہے۔ جبکہ پاکستان تو شروع سے ہی امن کے لیے کوششیں کر رہا ہے مگر مسئلہ کشمیر کے بغیر یہ ممکن بھی نہیں ۔۔ اور بھارت  کی کشمیر میں 370 اور 35 آرٹیکل  ہٹانے کی اصل وجہ ہی پاکستان ہے۔مگر اب بھارت حل کے لیے پاکستان کا رخ کر رہا ہے کیونکہ بظاہر اصل مسئلہ چین ہے۔

دنیا کو  سوچنا ہوگا کہ کیا مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت سےتعلقات  کی بہتری یا سمجھوتہ ممکن ہے ۔ اور چین بھی پاکستان کا دوست ہے۔ اور بھارت  وہ ازلی دشمن جو آئے دن سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا تھا ۔ اب اچانک سے  سکون کی خواہش کرنے لگا۔عوام کو سوچنا ہوگا کہ بھارت نے 2019 میں  پاکستان دشمنی میں جو کارروائی کی اس سے پورے  خطے اور کشمیری عوام کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا ہے۔خیر مودی سرکار نے کشمیر کی خودمختاری پر ضرب لگا کر بھارت میں آزادی کی چنگاریاں بڑھکا دی ہیں۔ بھارت میں خود مختاری کی تحریکیں اروناچل پردیش، آسام، بوڈالینڈ، کھپلنگ میگھا لیا، میزو رام، ناگا لینڈ، تیرہ پورہ، بندیل کھنڈ، گورکھا لینڈ، جھاڑ کھنڈ،تامل ناڈو، میزو لینڈ،خالصتان،ہماچل پردیش اور کشمیر میں تو آزادی کی تحریکیں اس حد تک توانا اور قوی ہو چکی ہیں کہ وہ مقبوضہ علاقوں سے بھارتی افواج کے انخلاء کیلئے فدائی حملوں کے ہتھیار کو بھی استعمال کر رہی ہیں۔ نریندر مودی سرکار نے راکھ کے نیچے سلگنے والی چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کر دینے کی کوشش کی ہے اور ان کی سرکار ابھی تک اس کام پر لگی ہوئی ہے۔نریندر مودی سرکار داخلی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر پاکستان کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہے ہیں۔ بھارت میں صرف چہرے بدلے ہیں، نظام نہیں بدلا۔ محض چہروں کی تبدیلی سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آ سکتی۔جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دیاچاہیے۔ حیرت اِس بات پر ہے کہ مغربی دُنیا کشمیریوں پر جاری بھارتی مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ اِن حالات میں ترکی کے صدر طیب اردگان نے کئی مواقع پر کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی اور بھارتی مظالم کی شدید مذمت کی ہے۔ لیکن حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی مسئلہ کشمیر دو ایٹمی ممالک کے درمیان حل کروانے میں تا حال ناکام ہے ۔ پاکستان کی حکومت، افواجِ پاکستان اور عوام مکمل طور پر کشمیریوں کے حق ِخود ارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان نے بارہا عالمی سطح پر کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کی بھر پور مخالفت کی ہے اور وادی ِکشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی فوراً روکنے کا پُر زور مطالبہ کیا ہے ۔ پاکستان ایک بار پھر کشمیریوں کے حق ِخود ارادیت کی مکمل حمایت کرتا ہے اور اہل ِکشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا حق دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ بھارت نے پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف ہمیشہ کشمیر میں مداخلت کا پروپیگنڈہ کیا ہے جسکا مقصد صرف کمال ہوشیاری اور چالاکی سے دُنیا کو مسئلہ کشمیر سے دور رکھنا ہے اور کشمیر میں اپنے ناپاک مزموم عزائم کو عملی جامہ پہنانا ہے ۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی 76 ویں جنرل اسمبلی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے حق میں بھرپور آواز اٹھا کر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ نہ تو پاکستان مظلوم کشمیریوں کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کو اس مسئلے کے حل ہونے تک چین سے بیٹھنے دے گا۔ اس حوالے سے کئی دوست ممالک پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں۔، مگر دُنیا نے دیکھا کہ کیسے 5 اگست 2019ء کو بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو کالعدم قرار دے کر اپنے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی حیثیت ختم ہی اس لیے کی کیونکہ اسے اس بات کا یقین تھا کہ پاکستان اس مسئلے کو چاہے جتنا اجاگر کرلے، بین الاقوامی برادری اس سلسلے میں محض کھوکھلے بیانات جاری کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرے گی اور اب تک ہوا بھی ایسا ہی ہے۔مگر اب مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ ظاہری بات ہے کشمیر اقوام متحدہ کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے اور متنازعہ جگہ کو کوئی بھی ملک جعلی قرار داد کے ذریعے اپنا حصہ نہیں بنا سکتا۔ بھارتی انتہا پسند قیادت نے اپنی بیمار ذہنیت کا ایک بار پھر کھل کر اظہار کیا اور دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ موجودہ بھارتی قیادت نہ صرف مسائل کو حل کرنے کی سکت نہیں رکھتی بلکہ امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچانے اور خطے کو جوہری جنگ کی آگ میں دکھیلنے پر تلی ہوئی ہے۔ بھارتی آئین میں علاقائی نوکریوں، زمینوں و کلچر ثقافت کو محفوظ بنانے کی پوری گنجائش موجود ہے۔ بھارت کی دیگر کئی ریاستوں کو ایسے آئینی تحفظ حاصل ہیں اور 370 میں بھی یہی بات تھی۔ آزادی کشمیریوں کی  بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر دنیاآج بھی جاگ کر متحد ہو کر مظلوم ومعصوم کشمیریوں کا ساتھ دے اور مودی کو کشمیر کی آزادی کے لیے پابند کرے۔تو یہ مشکل ضرور ہوگا مگر ناممکن نہیں آزادی سب کا حق ہے اور اس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں۔ لیکن افسوس صدافسوس تاحال عالمی برادری کا ضمیر سویا ہوا ہے اور کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی،کسی عالمی تنظیم یا انسانی حقوق کے ادارے کو یہ توفیق تک نہیں ہوئی کہ کم از کم کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم پر مذمت کر دیں۔عراق اور افغانستان پر حملہ آور ہو کر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول اور عالمی تسلّط کی خواہش مند بین الاقوامی قوتیں کشمیر میں بھارتی مظالم کو یکسر نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔وادی ِ مقبو ضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام اقوامِ عالم اور انصاف کے علمبرداروں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اِن کے بنیادی حقوق کب تسلیم کئے جائیں گے؟انہیں بھارتی مظالم سے کب نجات ملے گی ؟۔ یقیناً یہ ایک پریشان کُن صُورتِ حال ہے اور اس جانب عالمی برادری کی توجّہ ضرور مبذول کروانی اور بھارت کے ظالمانہ رویوں کا راستہ روکنا ہماری اوّلین ترجیحات میں شامل ہوناچاہیے۔اس کاتدارک محض مذمّتی بیانات سے نہیں،جارحانہ سفارت کاری ہی سے ممکن ہے۔ ورنہ جیلوں سے کشمیریوں کی لاشیں ہی ملتی رہیں گی اور ہمیں فاتحہ خوانی سے فرصت نہیں ملے گی۔

راجہ منیب (Raja Muneeb)

راجہ منیب

ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

عنوانات

مصنف کے بارے میں

راجہ منیب

عنوانات