نمود عشق

روح


روح
روح کا تصور اور موجودگی دنیا کے ہر مذہب کا حصہ ہے۔  ہندی مں اسے آتما اور روحِ کل یا اللہ تعالیٰ کو پرماتما کہتے ہیں۔ قرآن میں فرمایا گیا
” آپ صلعم فرما دیجئیے کہ روح امرِ رب ہے اور نہیں دیا گیا ہے تمہیں علم مگر تھوڑا سا” بنی اسرائیل 85
مطلب کہ روح ایک غیر محسوس چیز کس کا سمجھنا عقل سے باہر ہے سو نبی صلعم کے فرمان کو حق مانو کہہ یہی یمان اور ادب ہے۔ روح ملائکہ اور انسانوں کی طرح ایک مستقل مخلوق ہے اور یہ فرشتوں کو دیکھنے کی قابلیت رکھتی ہے۔ 
روح کو موت آتی ہے یعنی بدن کے جس ڈھانچے کو اس کا مسکن بنایا گیا ہے وہ اسی کی طرز کو اپنائے ہوئے ہے مگر جب بدن کو موت آتی ہے اور جدائ کا وقت آتا ہے تو جسم مردہ ہو جاتا ہے یہ روح کی علامتی موت ہے جبکہ وہ زندہ ہے اور ثواب و عذاب کا سامنا بہرحال کرے گی۔
قرآنِ حکیم اس کا بیان فرماتا ہے کہ
“کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہو سکتے ہو، جس حال میں تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی۔
پھر وہی تم کو مارتا ہے اور پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے” البقرہ 28
اس طرح قبر میں میت کا زندہ ہونا ثابت نہیں ورنہ تین مرتبہ زندگی کا ذکر آتا۔ اس میں انبیا ع ، شہداء اور کچھ رجالِ خاص کو استثنیٰ ہے جن کے بارے میں رب کا حکم ہے کہ ان کو زمین کھا نہیں سکتی اور وہ اللہ سے مخصوص رزق پاتے ہیں۔ اس کیفیت کو ناسوتی حواس نہیں سمجھ سکتے۔
مومن اور کافر کی روحوں میں واضح فرق مقام کا ہے مومن کی روح عرش کے نیچے مقیم ہوتی ہے اور عرش سے فرش تک آ جا سکتی ہے جبکہ کافر کی روح سجین میں عذاب کا شکار ہوتی ہے۔ سوالاتِ قبر کو دوران روح اور جسم۔کا تعلق اتنے حصے پر ہوتا ہے جو ضروری ہوتا ہے اور اس دوران نارمل حالت حاصل نہیں ہوتی اس کو فوراً بعد سزا یا جزا کا کھول دیا جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ روح ہی وہ قابلِ قدر گوہر ہے جس کی نشوونما حاصلِ زندگی ہے اسی کا تزکیہ اصلِ کل ہے جس کے نتیجے میں صالح ارواح کا مرتبہ بے حد بلند کر دیا جاتا ہے ان کو ملکوت کا مشاہدہ بغش دیا جاتا ہے جبکہ گمراہ ارواح پاتال میں دھنستی چلی جاتی ہیں۔  مثلاً موسیٰ علیہم السلام کو نبی کریم صلعم نے ان کی قبر میں دیکھا تھا۔ سو جو تصرفات انبیا کو معجزے کے طور پر عطا ہوئے ان کا اولیا کے ہاں بطور کرامت سرزد ہونا بڑی بات نہیں۔ بشرطیکہ وہ کسی کو چیلنج نہ کریں۔
روح کو سمجھنے کے لئے امرِ ربی کو سمجھنا ضروری ہے تو امرِ ربی کیا ہے؟ امر کی مخالف تلاش کریں تو ہمیں خلقِ ربی دکھائ دے گا۔ خلق یہی عالمِ اجسام ہے جس میں ہم سب وقوع/مقام پذیر ہیں۔ یہ کثافت رکھنے والے اجسام کا مسکن ہے اور اس میں حسیاتِ ظاہرہ حاصل  موصول ہیں جیسے چکھنا دیکھنا محسوس کرنا۔ یہ عالم کائنات کا آخری عالم کہلاتا ہے۔  
عالمِ اجسام اور عالمِ ارواح ساتھ ساتھ ہیں وگرنہ ان کا آپس میں coordination ممکن ہی نہ ہوتا۔ ظہور کی انواج کا اجسام سے ٹکرانا اور بطون لوٹ جانا ہی عالمِ اجسام کے قیام کی اصل وجہ ہے۔ ہر ظاہر اپنے باطن پر قائم ہے اسی لئے دیکھنا ممکن ہے۔ خلقِ ربی سمجھ گئے تو اب اس کو الٹ دینے سے امرِ ربی کو سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے خلقِ ربی حسیات کے ساتھ محسوس ہے تو امرِ ربی غیر محسوس ہو گا یہ آخری عالم ہے تو وہ پہلا عالم۔ یہ کثیف ہے تو دکھتا ہے وہ لطیف ہے سو گم ہے۔ یہ ظاہر ہے تو وہ باطن ہے( یہ معرفت کے بہت بڑے مسائل کا جواب ہے) جب امرِ ربی کی اس حد تک سمجھ آگئ تو سمجھ آیا کہ اس کے لئے حسیات نہیں روحانی قوت و بالیدگی چاہئے۔ جس طرح کان ناک زبان عالمِ اجسام کی فہم دیتی ہیں ایسے ہی روح یہاں اپنے ہونے کا ثبوت اپنی طاقتوں سے دیتی ہے یہاں روح ہی سنتی ہے وہی بولتی ہے اور وہی ہر حس بن جاتی ہے۔ روح کے ان افعال کو کارگر بنانے کے لئے مربی کی ضرورت پیش آتی ہے۔
پس امرِ ربی عالمِ نور ہے جو کُن سے پیدا ہو کر باطن کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے اور مسلسل امر سے خلق کی طرف محوِ سفر ہے۔یہی امر ہمارے کثیف احساسات کو عالمِ امر میں داخل ہونے سے روکتا ہے کیونکہ یہ عالم نور ہے سو نورِ عقل ہی کے ذریعے مل سکتا ہے۔ 
مثال کے طعر پر سورج کی روشنی مادی نہیں مگر مادی اجسام پر پڑ کر ان کو ظاہر کرتی ہے ہمیں سورج کی روشنی نظر نہیں آتی بلکہ کثافت والے اجسام نظر آتے ہیں ان کے رنگ ان کی تمیز کا باعث بنتے ہیں۔ سورج کہ روشنی عالم مثال اور رنگ عالمِ خلق ہیں۔ بعینہ روح بھی اس کثیف جسم۔پر ظہور کرتی ہے اور اسکے جملہ افعال۔کا باعث بنتی ہے کان میں ظہور کیا سماعت بن گئ دل میں ظہور کیا دھڑکن بن گئ پس جس دن پر ظہور ہوا اس جیسی بن گئ اور ہر حصے پر امرِ ربی کی صورت محیط ہو گئ۔
میری بھرپور کوشش رہی کہ میں روح کی ماہئیت اور اثر پذیری کو حد درجہ آسان اور مختصر پیرائے میں بیان کروں مگر یہ ممکن نہیں اس سے زیادہ اختصار قارئین کو بالکل ہی کنفیوز کر دیتا اور اس سے زیادہ تفصیل ایک تھریڈ میں مکمل نہ ہوتی۔  
کسی بھی دوست کا کوئ استفسار کوئ سوال (معقول) ہو و میں پوری کوشش کروں گا کہ مفصل جواب دوں اگرچہ ٹویٹر پر ایسا مکمل طور پر ممکن نہیں ہوتا۔
طالبِ دعا احقر    حامد عزیز توگیروی
حامد عزیز توگیروی

ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

About the author

حامد عزیز توگیروی

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

عنوانات

مصنف کے بارے میں

حامد عزیز توگیروی

عنوانات