کہانیاں

کنجر

Kanjar
Dancers

لفظ کنجر کے معانی اور ان لوگوں کو کمتر سمجھے جانے کے ضمن میں جوش ملیح آبادی کا یہ واقعہ باعث دلچسپی ہوگا۔ ایک بار جناب جوش لاہور تشریف لائے تو ایک نوجوان نے ان سے استدعا کی کہ جناب ! میر تقی میر کا ایک شعر

سمجھا دیا جائے۔ جوش صاحب نے گلوری منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا، کہئیے میاں صاحب زادے کون سا شعر ہے؟ نوجوان نے بتایا

میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں

جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں

جوش مسکرائے اور فرمایا، کنجر تنگ کر رہا ہے؟ نوجوان نے ہاں میں سر ہلایا۔ جوش صاحب بولے، صاحب زادے، یہ پنجاب کا کنجر نہیں ہے۔ گنگا جمن کی وادی میں کنجر، خانہ بدوش کو کہتے ہیں، جس کا کوئی متعین ٹھکانہ نہ ہو۔

کنجر ، شمالی بھارت، کشمیر اور پاکستان میں بسنے والے ایک خانہ بدوش قبیلے کا نام ہے۔ میراثی قبائل بھی غالباً انہی سے متعلقہ ہیں۔ ان لوگوں کو بسا اوقات ناتھ، بنجارا اور گشتے کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ نام اچھے معنوں میں نہیں لیے جاتے اور ان سے ان لوگوں کا کم تر ہونا مراد لیا جاتا ہے۔

پرانے وقتوں میں کنجر زیادہ تر جنگلوں اور بیابانوں میں رہا کرتے تھے۔ یہ لوگ حصول خوراک کے لیے عموماً جنگلی جانوروں کا شکار کرتے تھے اور بعضے دودھ اور گوشت کے لیے بکریاں، گائے اور بھینسیں بھی پالتے تھے۔ان میں سے بیشتر ابھی تک ایک جگہ سے دوسری جگہ پڑاؤ اور نقل مکانی کرتے ہوئے وہی روایتی خانہ بدوشانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ چند ایک شہروں اور قصبوں میں بھی بس گئے ہیں۔ ان میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ یہ لوگ اکثر انتہائی غریب ہو تے ہیں اور حصول روزگار کے لیے ایسے گھٹیا کام بھی کر لیتے ہیں جنہیں امیر لوگ نہیں کرسکتے۔

کنجر سنسکرت کے لفظ کننا چرا سے ماخوذ ہے۔ کننا چرا کے لغوی معنی جنگل میں آوارگرد کے ہیں۔

کنجروں کا دعوی ہے کہ وہ راجستھانی الاصل ہیں۔ تمام کنجر اپنا شجرہ نسب اجداد مشترک منو گُرو اور اس کی بیوی نتھیا کنجرن سے ملاتے ہیں جن کی بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں مقیم کاشتکار تھے۔

کنجر اپنی روایتی مادری زبان نرسی پرسی سمیت چار سے پانچ زبانیں بولتے ہیں۔ نرسی پرسی میں بہت سے جانوروں اور پرندوں کی آوازیں، خفیہ حروف اور علامات شامل ہیں۔

یہ لوگ کلّاد، سپیرلا، دلیال اور رچھبند نامی چار ذیلی خاندانوں /شاخوں میں تقسیم ہیں، ایک پانچواں پتھر کٹ نامی خاندان الگ ہو گیا اور یہ لوگ اب باقی کنجر خاندانوں میں رشتے لیتے نہ دیتے ہیں۔

پاکستان میں دو مختلف قبیلے کنجر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔صدیوں پر محیط سفر زندگانی کے دوران ان میں سے ایک طبقہ قحبہ گری سے منسلک ہو گیا جبکہ ایک گروہ کاریگری اور تفریح و تفنن طبع کو ذرائع روزگار بنائے ہوئے ہے۔ یہ لوگ گانا بجانا، ناٹک اور سرکس سے منسلک ہیں یا مٹی، سرکنڈوں اور رنگین کاغذوں سے روایتی کھلونے بنا کر گلی گلی بیچتے ہیں۔ کنجروں کی یہ دونوں برادریاں پنجاب میں رہتی ہیں۔کنجر کی اصطلاح ایک قبیلے کے نام سے زیادہ قحبہ گری یا اخلاقی طور پر پست افراد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

شہر نگاراں لاہور کے قدیم علاقے ہیرا منڈی کے مضافات اس برادری کے گڑھ ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس بازار سے امرائے ہند انہی مفلس و نادار برادریوں سے بیویاں خریدتے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہاں جب کوئی لڑکی بلوغت کو پہنچتی اور اسے کسی مرد کے سپرد کیا جاتا تو “مِسّی شادی” نام کی دعوت برادری کو دی جاتی تھی۔

اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب بھی پاکستان کے شہر لاہور اور کشمیر کے کچھ علاقوں میں بہت سی کنجر لڑکیوں کو ان کے گھر والے قحبہ گری کے لیے بیچ دیتے ہیں۔ یہ لڑکیاں ہیرا منڈی کے کوٹھوں پر رہتی ہیں۔

کنجروں کی زیادہ آبادی لاہور کے شاہی محلہ اور اس کے نواح میں ہے۔ یہ علاقہ صدیوں سے ان لوگوں کا مسکن رہا ہے۔ پاکستان کے کئی نامور موسیقاروں کا تعلق اسی علاقے سے تھا۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق:

“ ایک کنجری طبلے اور گھنگرو کی آواز آنکھ کھولتے ہی سننا شروع کر دیتی ہے۔ اور اس کی رسمی تربیت اس وقت سے شروع کر دی جاتی ہے جب اس کے ہم عمر غیر کنجر عام بچے اسکول داخلے کی عمر کو بھی نہیں پہنچے ہوتے۔

Jameel Minhaas

ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

About the author

Jameel Minhaas

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.