شاہ جمال کا مجاور
مصنف رؤف کلاسرا
میں رؤف کلاسرا صاحب کو دو وجہ سے پڑھتا ہوں اک ، میرے خیال میں وہ پڑھے جانے کے قابل ہیں اگرچہ میرے حلقہ احباب میں بھی ایسے لوگ ہیں جو اس بات سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن میں ان کو کہتا ہوں کہ رؤف کلاسرا کی تحریر سے اختلاف کرنے کیلیے بھی ضروری ہے کہ اس کو پڑھا جائے
دوسری یہ ہے کہ ہم دونوں گزرے وقت میں قید ہیں آپ اس کو رومانس کہ لیں نا سٹلیجیا کہ لیں یا پھر دماغ کا خلل لیکن ہم دونوں آج تک اپنے گاوں، سکول، کالج اور اس دور کی محفلوں سے نہیں نکل سکے۔ ہم شہروں میں بسے وہ پینڈوں ہیں جو اپنا گاوں اور اس سے جڑی یادیں شہر لے کر آ گے اور
ہم دشت نشیوں پر کھلا شہر آ کر
یہ لوگ جو آباد ہیں ویران بہت ہیں۔۔
اور شہر کے ان ویرانوں میں آ کر ہم دشت نشیں مجاور ہو گے۔
اگر آپ شاہ جمال کا مجاور کتاب پڑھیں تو اس کے پہلے باب کا عنوان ہی یہ ہے جس میں اک مجاور کی محبت عقیدت اور امتحان کا ذکر ہے، میں یہ سمجھا کہ بس اس کتاب میں یہ اک ہی مجاور ہے مگر جوں جوں کتاب پڑھتا گیا تو معلوم ہوا کہ نہیں اس میں اور بھی مجاور ہیں اور ان میں سے سب سے بڑا مجاور خود رؤف کلاسرا ہے کہ
جس شخص کو ’’ نیویارک کی اک رات’’ میں بھی پاولو کوئیلو کا ناول
Winter stands alone
یاد آیا
اور پھر اپنا گاوں یاد آیا گاوں کی روشن راتیں یاد آیئں اور گلیاں یاد آیئں
جو خود پیش لفظ میں لکھتا ہے ’’ مجھے خود نہیں پتہ میں اداس لوگوں کی کہانیاں اور قصے کیوں لکھتا ہوں’’ ایسا شخص آپ خود ایمانداری سے بتایں مجاور ہے یا نہیں!!!!!
یہ کتاب پڑھ کر مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ مجاور ضروری نہیں کہ کوئی نامعلوم شخص ہو بڑے لوگ جو اپنے کردار اپنے فن اپنے خاندان وغیرہ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں وہ بھی مجاور ہو سکتے یئں
جیسے پٹھانے خان بھی پاکستان کا مجاور ہی تھا جس نے ذولفقار علی بھٹو کے شاہی حکم ’’ خان مانگو کیا مانگتے ہو’’ کے جواب میں کہا تھا
بھٹو سایئں ! میڈی دھرتی ماں دی پارت ہووی
( میرے وطن کی عزت کا خیال رکھنا)
سونیا گاندھی اور پرنیکا گاندھی جیسی خواتیں جن نے راجیو گاندھی کی قاتلہ کو اس لیے پھانسی نہ لگنے دی کہ اب وہ اک ماں تھی۔
یا پھر ۱۹۷۱ کی جنگ کا شہید کیپٹن احسن ملک جس کو دشمن ملک کا فیلڈ مارشل مانک شا جنگ کے ۲۸ سال بعد بھی یاد کر کے کہتا ہے “اگر مجھے پاکستانی فوج میں کسی نے بہادری سے اتنی بڑی بھارتی فوج کے خلاف لڑنے پر متاثر کیا ہے تو وہ کیپٹن احسن ملک ہے”آ پ میں اور ہماری نسلیں کیپٹن احسن ملک کے نام سے واقف تک نہئں !!! مجاور ہی تھا نا اس لیے!!
اسی طرح “دلی کی اک اداس شام”میں سپرا صاحب کی ماٰں ڈیرہ اسماعیل خان کی یاد میں رؤف کے گلے لگ کر روتی ہے کہ اس کا دکھ مادری زبان میں کوئی سنے تو ایسا مجاور ہی کرتے ہیں کہ
ہوش والوں کو خبر کیا
بے خودی کیا چیز ہے !
یہ نہیں کہ اس کتاب میں صرف مجاوروں کا ہی ذکر ہے، اک طرف اگر مجاور ہیں تو دوسری طرف برصغیر کے دروازے پر دستک دیتے فاتحیں اور دلی آباد کر کرکے اس کو اجاڑنے والے سلاطین کا بھی ذکر ہے، تاریخ کے اس جبر کا بھی ذکر ہے جس کے تحت ہم کو سکول کالج میں زندہ آباد اور واہ واہ والی تاریخ پٹرھائی جاتی ہے۔
یہ اک کتاب ہے جس میں بڑے لوگوں کے چھوٹے کردار اور چھوٹے لوگوں کے بڑے کردار کا ذکر ہے!
یہ کتاب ہے جو کہ پڑھی جانی چائیے!
کیوں؟
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
تحریر جہانگیر محمود مرزا
جہانگیر محمود مرزا ایڈووکیٹ
ضروری نوٹ
الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔
Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com
Add Comment