معاشرہ

دوست کیسے ہونے چاہیے

Friends
Friendship

انسانی زندگی میں  بعض لوگوں سے تعلقات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں جنہیں کسی رشتے کا نام تو نہیں دیا جاتا لیکن انہیں نبھانا ضروری سمجھا جاتاہے، ان میں ایک اہم تعلق دوستی کا بھی ہے.
دوستی کے نتائج  دنیوی معاملات تک ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کا بندے کے دین و آخرت پر بھی اثر پڑتاہے، لہٰذا کسی سے بھی دوستی کرنے سے پہلے رسولِ کریم، رءوف رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمانِ  لازمی پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ
”اَلْمَرْءُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ فَلْیَنْظُرْاَحَدُکُمْ مَّنْ یُّخَالِلُیعنی”
 آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کررہا ہے۔
(مستدرک ،ج5،ص237،حدیث:7399)
رسول اللہ ﷺ نے ایسے دوستوں کی دوستی کا فائدہ مثال کے ذریعے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: نیک دوست کی مثال خوشبو بیچنے والے کی طرح ہے کہ اگر تمہیں اس سے اور کچھ نہ بھی ملے تو اس کی خوشبو تو ضرور تم تک پہنچ کر رہے گی اور برے دوست کی مثال ایک دھونکنی والے کی ہے کہ اگر اس کی سیاہی سے بچ بھی جائیں تو اس کا دھواں تو لگ کر ہی رہے گا.
(سنن أبو داود 4829)
اسی لیے پیارے بھائیو! دوست کو اختیار کرنے میں بہت احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ ان دوستیوں کا تعلق صرف ہماری دنیا کے ساتھ ہی نہیں ہوتا بلکہ
آخرت کی کامیابی کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔
ایک ایسا سچا, قابل اعتماد, دیندار اور بصیرت افروز دوست بنائیں اور اسے اپنے اوپر رقیب مقرر کر لیں کہ جب میں کوئی ناپسندیدہ کام کروں تو مجھے تنبیہ کرنا.
اگر کبھی دوست سے کوئی غلطی ہوجائے یا وہ بُری صحبت میں پڑ جائے تو یک لخت اس سے دوری اختیار کرنے کے بجائے اسے سمجھانا چاہئے.
 اچھے دوست کے اوصاف میں سے اہم ترین وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دوست کو بری صحبت میں نہیں چھوڑتا، بلکہ اسے برائی سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی عملی صورت حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مبارک عمل سے ملاحظہ کیجئے چنانچہ منقول ہے کہ ملک شام کا رہنے والا ایک بہادر شخص امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں آیا کرتا تھا۔ ایک بار وہ کافی عرصہ تک نہ آیا تو آپ نے اس کے متعلق پوچھا ، آپ کو بتایا گیا کہ وہ شراب کے نشے میں رہنے لگا ہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا: عمر بن خطاب کی جانب سے فلاں کی طرف، تم پر سلام ہو، میں تمہارے ساتھ اس اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرتاہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول فرمانے والا، شدید پکڑ کرنے والااور خوب مہربان بھی ہے اس کے سوا کوئی لائِقِ عبادت نہیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ 
پھر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ساتھیوں سے فرمایا:اپنے بھائی کے لئے اللہ تعالیٰ سےدعا کرو کہ اللہ کریم اس کے دل کو پھیر دے اور اس کی توبہ قبول کرلے۔ جب وہ مکتوب اس شخص کے پاس پہنچا تو اس نے پڑھنا شروع کیا اور بار بار کہتا جاتا: گناہوں کو بخشنے والا! توبہ قبول کرنے والا! میرے رب نے مجھے اپنی پکڑ سے ڈرایا ہے اور میری بخشش کا وعدہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک اور صالح دوستوں کی صحبت اور اپنے مقربین کی رفاقت نصیب فرمائے۔ آمین
تحریر: سجاول سلیم

ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

About the author

Sajawal Saleem

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.