اوائل زمانہ بڑا کنبہ اثر و رسوخ کی علامت تھا .
انسان رب کی زمین پر پھیلتا رہا کنبے قبائل بن گئے اور انسان رب کی زمین پر وسائل کی تلاش میں پھیلتا رہا.
جہاں وسائل دستیاب ہوئے یہ قبائل آباد ہوکر قوم کی شکل اختیار کر گئے.
جس خطہ میں تعداد کے اعتبار سے لوگ ذیادہ ہوئے وہ دوسرے خطوں پر اثر رسوخ پیدا کرتے گئے .یہی اثر و رسوخ بادشاہت و حاکمیت کی بنیاد بنا.
قوت و حاکمیت کی یہ ابتدائی شکل اب بھی موجود ہے مگر دور حاضر میں قوت اور اثر و رسوخ کی یہ شکل اب تعداد ، ہتھیار کی محتاج نہیں رہی.
عصر حاضر میں یہ قوت صرف تجارت کو حاصل ہے.
آپ دنیا کے تمام ممالک کا تقابلی جائزہ لیں جو ممالک صنعتی و تجارتی لحاظ سے مظبوط ہیں وہ اقوام عالم میں مظبوط ہیں.
آج امت مسلمہ کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ تجارت و صنعتی کاوشوں سے دوری ہے. مادی وسائل کی بہتات کے باوجود
صنعتی جدوجہد کا فقدان دراصل ملت سے بے وفائی ہے.
کیا آپ ﷺ کا عطاء کیا گیا ضابطہ حیات ہمیں اس بات کی دعوت نہیں دیتا کہ رزق حلال کے لئے جدو جہد کی جاسکے.
رب کریم کے عطاء کئے گئے وسائل کی بے قدری ہماری اپنی خطاء ہے جسکا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں
معیشت اگر کمزور ہو تو مظبوط ہتھیار یا تعداد بھی اپنا اثر کھو دیتی ہے.
اگر ہماری تعلیمی نظام کو دیکھا جائے تو مزدور کا نوکر پیدا کرتا صاف نظر آ رہا مگر تاجر ، صنعت کار ہرگز نہیں.
ہماری عائلی سوچ بھی اس بات کی عکاسی کرتی ہے بڑا ہو کر افسر بنے گا. مگر وسائل کے بہتر استعمال کی طرف خیال بھی نہی جاتا .
چین آج اپنی گھریلو صنعت کی وجہ سے دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہے . بڑی معیشت کو آپ بڑا اثر رسوخ سمجھیں.
آج ہماری سنوائی ایٹمی ہتھیار ہونے کے باوجود کہیں نہیں ہوتی ۔ہم جان قربان کر سکتے ہیں مگر معاشی غلامی کا طوق اپنے گلے سے نکال پھینکنے کو تیار نہیں
نعرے ریلیوں والوں کے لباس جوتے مشروبات سب ان ہی کی مصنوعات ہیں جنکو ظالم کہتے ہیں.
آج کا دور معشیت کا دور ہے ظالم سے نہیں اسکی مصنوعات سے جنگ کی ضرورت ہے
ظالم خود جھک جائے گا.
وسلام
طالب دعا
احسان خان














Bohat Alaaa