معاشرہ

ایک اور ذمہ داری باقی تھی

Parents
Parents

تمام مخلوقات کے بچوں میں سب سے مشکل پرورش انسان کے بچے کی ہوتی ہے
تمام والدین اپنے بچوں کی پرورش اچھے سے اچھے طریقے سے اپنی حیثیت سے بڑھ کر کرتے ہیں۔
بچے پر ایک وہ وقت بھی ہوتا ہے جب وہ یہ تک نہیں بتا سکتا کہ وہ بھوکا ہے لیکن والدین کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ انکے بچے کو کب کیا چاہیے وہ اسکی ہر حاجت کو پورا کرتے ہیں۔
پھر ایک وقت آیا ہے جب بچہ اٹھنے ، چلنے، پھرنے کی کوشش کرتا ہے تو والدین ہر لحاظ سے اسکا خیال رکھتے ہیں کہ کہیں ہمارا بچہ گِر نہ جائے اسے کوئی چوٹ نہ لگے یا وہ کسی نقصان دہ چیز کے قریب نہ جائے جس سے اسکو کوئی تکلیف پہنچے۔
پھر ایک وقت آتا ہے جب بچہ تعلیم حاصل کرنے لگتا ہے
والدین کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ اچھی سے اچھی درسگاہ سے نمایاں کامیابی حاصل کرے اس کی کے لیے وہ خود کو مشقت میں ڈال کر اپنے بچے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں وہ اسکی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں چاہیے اسے پورا کرنے کی طاقت ہو یا نہ ہو۔
اب وہ وقت آتا ہے کہ بچے کا تعلیمی مرحلہ ختم ہونے والا ہے اب اس نے امتحانات سے خود کو ثابت کرنا ہے کہ اسکی قابلیت کیا ہے اب والدین دن رات محنت کریں گے اسکا خیال رکھیں گے اسکو کسی بھی قسم کی غیر ضروری سرگرمیوں سے بچائیں گے کہ اگر ہمارا بیٹا کامیاب ہو گیا تو اسکی زندگی سنور جائے گی۔
اب انکی محنت رنگ لاتی ہے انکا بچہ کامیاب ہو جاتا ہے انکی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی اب وہ خود کو پرسکون محسوس کرتے ہیں کہ وہ انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھا دی۔
بیشک انہوں نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی لیکن ابھی ایک ذمہ داری باقی تھی جس کی طرف بہت کم والدین توجہ دیتے ہیں
ابھی اس بچے کا ایک آخری امتحان باقی ہے اصل کامیابی اس میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے سے ہے
دنیا میں کامیابی کے متلاشی والدین اکثر بھول جاتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد بھی ایک زندگی اور اس میں بھی ہمارے بچے کو کامیاب ہونا ہے۔
جیسے بچے کو غیر ضروری سرگرمیوں سے بچایا گیا تھا کہ وہ امتحانات کی تیاری کر سکے اسی طرح بچے کو گناہوں سے بچانے کی ذمہ داری ابھی باقی تھی کہ بچہ اپنی آخرت کی تیاری کر سکے۔
جیسے اسے دنیا میں کامیاب کرنے کے لیے دن رات محنت کی خود کو مشقت میں ڈالا ایسے ہی اسکی ابدی زندگی میں کامیابی کے لیے بھی محنت کرنی تھی۔
جیسے اس کے لیے گرم سرد موسم میں اس کے آرام کا بندوبست کیا جاتا تھا ایسے ہی اسکی قبر کی زندگی میں آرام کا بھی بندوبست کرنا تھا۔
جیسے بچپن میں اسکا خیال رکھا جاتا تھا کہ کہیں گر نہ جائے کسی نقصان دہ چیز کو نہ چھو لے ایسے ہی اسے بچانا کہ کہیں دنیا میں پڑ کر ہمارا بچہ کل جہنم میں نہ جا گرے۔
اپنی دنیاوی ذمہ داریاں پوری کرتے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آخرت کی ابدی زندگی کے لیے بھی اولاد کو تیار کرنا ہے۔

تحریر : طیب شبیر

@Tayyib_Shabbir


ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

About the author

Tayyib Shabbir

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.