پاکستان سے

تعلیمی تنزلی کا ذمہ دار کون

education
education system

تعلیم ایک ایسا عمل اور زینہ ہے جس کے ذریعے علم، مہارت، اقدار یا رویوں کے علم کے حصول کو آسان بنایا جاتا ہے۔ تعلیم مختلف وسائل، سیاق و سباق میں پائی جاتی ہے، اسے مختلف اشکال میں بیان کیا جا سکتا ہے اور یہ مختلف اقسام میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے ، لیکن مقصد ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔اگرچہ تعلیم ایک آفاقی تصور ہے، لیکن باقاعدہ تعلیم ایک ملک سے دوسرے ملک میں مختلف ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ، ہر ثقافتی،تہذیبی سیاق و سباق تعلیم کی راہ میں فرق پیدا کرتا ہے ۔ تعلیم رسمی اور غیر رسمی انداز میں دی جاسکتی ہے۔رسمی تعلیم سے مراد باقاعدہ تعلیم ہے۔ یہ تعلیمی مراکز میں پڑھائی جاتی ہے اور اس کی تین نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں: رسمی تعلیم منظم انداز میں دی جاتی ہے، یہ ارادی طور پر دی جاتی ہے اور اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔رسمی تعلیم کو قوانین کے ذریعہ باقاعدہ بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی ایکٹ کے پیچھے ایک منصوبہ بندی ہوتی ہے، جس کے تحت لوگوں کو پیشہ ورانہ طور پر تربیت دی جاتی ہے۔ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اسناد، سرٹیفکیٹ یا ڈپلومہ یا مختلف ڈگریاں فراہم کی جاتی ہیں۔غیر رسمی کی اصطلاح سے مراد تعلیم کی ایسی قسم ہے جو ارادی اور منظم ہے، لیکن یہ رسمی دائرے سے باہر ہے۔ لہٰذا ، یہاں کوئی قانون موجود نہیں ہے اور اسے حکومتی شعبے کے ذریعہ باقاعدہ نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کو اسناد، سرٹیفکیٹ کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے ، لیکن اس کی کوئی پیشہ ورانہ قیمت نہیں ہے۔ غیر رسمی تعلیم زندگی بھر کے لیے ہوتی ہے۔تعلیمی اداروں کے بجائے یہ معاشرتی میدان میں دی جاتی ہے، مثال کے طور پر ، جب والدین اپنے بچے کو اقدار کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ وہی چیز ہے جس کو تاریخی لحاظ سے سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس طرح یہ تعلیم کی ایک قسم ہے جو زندگی بھر مسلسل جاری رہتی ہے، یہاں تک کہ ان حالات میں بھی جب آپ اس سے واقف ہی نہیں ہوتے ہیں۔
ماضی اور حال کے قوموں کی ترقی اور تنزلی کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ ان کی کامیابی اور ناکامی کے پیچھے تعلیم ہی ہے۔
ہمارے وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھی بہت سے چھوٹی موٹی مسائل کا سامنا ہے اس میں سے ایک اہم مسئلہ تعلیم ہے ،شاید اسی کی وجہ سے ہمارے حالات روز بروز بدتر ہو رہے ہیں۔
تعلیمی تنزلی کی بہت سی عوامل ہے ان میں سے غربت بھی ایک ہے ،غربت کی وجہ سے بچوں پر بچپن میں گھر کے کام کاج کی ذمہ داریاں آجانا وغیرہ  اور بچیوں کو اسکول بھیجنے کے لیے والدین کا رضامند نہ ہونا۔ ہمارے شہریوں میں تعلیم کے افادیت اور اہمیت کے بارے میں شعور نہ ہونا بھی ایک اہم مسئلہ ہے اس کی وجہ سے والدین بچوں کو کسی اسکول میں داخل تو کروا دیتے ہیں مگر ان پر توجہ بالکل نہیں دیتے ،بہت سے والدین کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا بچہ یا بچی کون سی جماعت میں ہے؟ وہ کون کون سے مضامین پڑھتا یا پڑھتی ہے؟ اس کے اسکول کی کیا ضروریات ہیں؟ اس کے اساتذہ کون ہیں؟ کیا اساتذہ اسکول میں موجود بھی ہوتے ہیں یا پھر بچہ یا بچی اسکول کا صرف طواف کر کے واپس لوٹتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات اکثر نفی میں آتے ہیں۔ یہ بات بھی کافی حد تک واضح ہوئی کہ والدین میں شعور کا ہونا کتنا لازمی ہے۔
جاگیردارنہ نظام بھی تعلیم میں رکاوٹ ہے،کئی وڈیرے،سردار اور جاگیردار تعلیم کی راہ میں ارادی یا غیر ارادی طور رکاوٹ بن جاتے ہیں ،اس کے دو صورتیں اکثر ملتی ہیں اول یہ کہ سردار اور جاگیردار اسکول کے پلاٹ کے مالک ہوتے ہیں اسی وجہ سے وہ اسکول میں معاملات میں مداخلات کرتے ہیں پھر اساتذہ تنگ ہوکر وہاں سے اپنا تبادلہ کروادیتے ہیں،دوئم یہ کہ کافی سارے اسکولوں میں جاگیردار اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے قریبی رشتہ داروں مثلا بھائی،بھتیجے یا کسی اور کو بطور استاد بھرتی کروادیتے ہیں،پھر وہ استاد اپنے آپ کو خود مختیار تصور کرنے لگتا ہے اسکول اور بچوں کو وقت نہیں دیتا اور علاقہ مکین اس کے خلاف داد فریاد بھی نہیں کر سکتے،اسی طرح تعلیم جیسی انمول چیز جاگیردارانہ نظام کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔
تعلیمی تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ہماری گورنمینٹ بھی ہوتی ہیں کیوں کہ بنیادی مفت تعلیم کی فراہمی،اس کے لیے شعور اور سازگار ماحول پیدا کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ اسکولوں کے لیے نہ اچھی بلڈنگ ہوتی ہیں،ان میں نہ تو مناسب فرنیچر موجود ہوتا ہے،نہ بجلی پانی اور بیت الخلاء کی سہولت،نہ تمام مضمون پڑھانے کے لیے مضمون کے ماہر اساتذہ ہوتے ہیں ایسے ماحول میں بچوں کا پڑھنا بہت مشکل بن جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اردو اور انگریزی میڈیم کی وجہ سے بھی سرکاری اسکول میں پڑھنے والے کافی بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور جب وہ ہائی اسکول میں پہنچتے ہیں تو انہیں یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ،انہیں اردو میڈیم کی بنا پر ملازمت اور نوکریوں میں ترجیح نہیں دی جائے گی،اس سوچ کا شکار ہو کر وہ مزید اعلیٰ تعلیم سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔
حکومت وقت کو چاہیے کہ مسئلہ تعلیم پر خصوصی توجہ دے، پورے ملک میں یکساں نصاب رائج کرے،اساتذہ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے انہیں تربیت دے اور تمام اسکولوں ہر ماہ کم سے کم والدین اور اساتذہ کے میٹنگ کو لازمی قرار دے، حصول تعلیم کے لیے ماحول کو سازگار بنائے اور اسکولوں کی ضروریات پورا کرے۔
تحریر: لعل ڈنو شنبانی 
لعل ڈنو شنبانی

ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

About the author

لعل ڈنو شنبانی

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

عنوانات

مصنف کے بارے میں

لعل ڈنو شنبانی

عنوانات