کہتے ہیں کامیابی اور ناکامی کے درمیان صرف چاہت کی شدت کا فرق ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی ناکامی کا الزام قسمت کو دیتے ہیں وہ قسمت کے بارے کچھ نہیں جانتے۔ انسان رب کی لاجواب تخلیق ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ انسان کو اللّه تعالی نے بہت سے جذبات اور احساسات سے نوازا ہے اور دنیا میں یہی احساسات اور جذبات اس کے لئے امتحان کا باعث بنتے رہتے ہیں کبھی وہ ان جذبات کی وجہ سے کامیابی حاصل کرتا ہے تو کبھی ناکامی اس کے حصہ میں آتی ہے یہاں بات آتی ہے احساس و جذبات کی شدّت کی ۔ ویسے تو انسان اپنی خواہشات اور مطالبات میں۔ بہت زیادہ شدّت پسند واقع ہوا ہے لیکن دیکھا جائے تو بعض اوقات یہ شدت اس کے لئے نقصان کا سبب بن جاتی ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہی کہ شدت تب ہی نقصان سے دو چار کرتی ہے جب وہ رب کی رضا اور اس کے طے کردہ اصولوں سے تجاوز کر جائے۔ رب کائنات نے جہاں انسان کو احساسات سے نوازا ہے وہیں اسے ان جذبات و احساسات کے حوالے سے حدوں میں قید بھی کر دیا۔ اور بے شک ہمارا رب ہر چیز سے واقف ہے۔ اس کے ہر کام میں بھلائی چھپی ہے مگر انسان کم فہم و کم عقل اس کی ملحت کو نہیں سمجھتا بات ہو رہی تھی شدّت کی ۔۔۔ شدت یعنی گہرے طور سے ، دل سے ۔۔۔ یہ گہرائی کسی بھی لہٰذ سے ہو سکتی ہے ۔ شدّت خواہ دنیاوی آسائشات کے طلب میں ہو خواہ اس فانی دنیا سے بالاتر رب کی رضا کے حصول میں، ہر صورت میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہاں غور طلب اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مانگنے کی شدت ہی سے قبولیت کی ڈور جڑی ہے ۔۔ کیسے ؟؟؟؟ انسان رب کی رضا کے سامنے بے بس ہے۔ لیکن جب رب تعالی خود فرماتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں عطاء کروں گا اور جب انسان اس فرمان کو ذہن میں رکھ کر رب سے کچھ طلب کرے تو میرا یقین ہے رب اپنی رضا بھی بدلنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن کبھی بھی کسی بھی چیز کو پانا اتنا سہل نہیں رہا، اور پھر بات جب رب سے مانگنے کی ہو تو پھر الفاظ کی تاثیر اور لہجے کا جدا و منفرد ہونا تو لازم ٹھہرا۔۔ ہر طلب پوری ہوتی ہے ، ہر مراد بر آتی ہے ، ہر مشکل کو وہ آسانی میں بدل دیتا ہے ۔۔۔۔۔بس ایک چیز سے اور وہ ہے مانگنے کی شدّت ، دعا ۔۔۔۔ جب بندہ شدت سے اپنے رب سے کچھ طلب کرتا ہے تب تقدیریں بدل جایا کرتی ہیں، قسمتیں انسان کی طلب اور خواہش کے تابع ہو جاتی ہیں اور تب رب تعالی کن فرماتا ہے کہتے ہیں نہ کہ “اللّه تعالی کی قدرت تمہاری نہ ممکن باتوں سے بہت بڑی ہے۔۔۔۔ قبولیت کی ہر ڈور تمہارے مانگنے کی شدت سے جڑی ہے۔۔۔” نبی کریم ﷺ نے دعا کو مومن کا ہتھیار قرار دیا ہے ! اور دعا مانگنے میں یقین ، عقیدت اور شدت کا ہونا بہت ضروری ہے اور جب یقین ، عقیدت اور شدت سے طلب کیا جائے تو دعائیں قبول کر لی جاتی ہیں بس ضرورت ہے تو اس بات کو سمجھنے کی کہ “مانگنے کی شدّت سے ہی تو قبولیت کی ڈور جڑی ہے
Twitter: @samiamjad715
ضروری نوٹ
الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔
Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com
Add Comment