اسلامی تاریخ

میلادُالنّبی ﷺ (اعتراضات اور وضاحتیں)

Madina
Milaad

بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين الصلاة والسلام على سيدنا محمد ﷺ وعلى اله وصحبه وسلم-
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ کلمہِ حق لکھنے کی توفیق دے۔
جیسے ہی ماہ ربیع اوّل شروع ہوتا ہے تو ہمارے پاکستان میں جہاں حضور رسالت ماب ﷺ کے ذکر کی بہار ہوتی ہے وہیں اک بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ میلادِمصطفی ﷺ منانا جائز ہے یا نہیں ؟
علماء اور دینی مدارس کے طلباء یا کسی ایک مسلک کے پیروکار تو اپنے اپنے مسالک کے مطابق جائز ناجائز کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور اس پر قائم رہتے ہیں لیکن غیرجانبدار آدمی کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ان کو ہر روز کالج یونیورسٹی یا دفاتر میں کسی نہ کسی بحث کا حصہ بننا پڑتا ہے اس چیز کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں ایک عام آدمی لیے اس موضع کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔
واضع رہے کہ احادیث یا اقوال کے علاوہ جو مواد ہے وہ میرا تجزیہ یا مشاہدہ ہے ہر کوئی اس سے اختلاف کا حق رکھتا ہے۔
ویسے تو پاکستان میں بہت سے دینی مسالک ہیں ہر کسی کے دوسرے کے ساتھ اختلافات مختلف ہیں اور ہر ایک کے پاس اس کے دلائل بھی موجود ہیں لیکن چونکہ ہمارا موضوع میلادِمصطفی ﷺ ہے تو اس معاملے میں دو فریق ہی ملتے ہیں ایک وہ لوگ ہیں جو اسے جائز قرار دیتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو اسے بدعت یا گمراہی کہتے ہیں۔
اور تیسرے آتے ہیں غیرجانبدار لوگ جو کسی فریق کا حصہ نہیں ہوتے لیکن میلادِ مصطفی منا لیتے ہیں یا نہ منانے میں کوئی حرج بھی نہیں سمجھتے اگر وہ نہ منائیں تو کیونکہ وہ میلاد منانے سے انکاری نہیں ہوتے تو یہ بحث تو ان کے اقرار پر ختم ہو جاتی ہے۔
جو لوگ میلاد منا لیتے ہیں ان کو جس بحث کا سامنا ہوتا ہے وہ بہت لمبی چلتی ہے اور ایسے اعتراضات ہوتے ہیں جن کا جواب مشکل ہو جاتا ہے۔
پہلا میلاد کو بدعت قرار دیا جاتا ہے اور ہر بدعت گمراہی والی حدیث پیش کی جاتی ہے (ابو داؤد 4607)

دوسرا سوال ہوتا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں نہیں منایا پھر خلفاء راشدین یا بعد کے مسلم بادشاہوں نے کیوں نہیں منایا
تیسرا کہ حضور ﷺ کا وصال ۱۲ ربیع اوّل کو ہو تھا تو اس دن خوشی کیسی۔
سوال تو بہت ہوتے ہیں لیکن یہ وہ مستند سوالات ہیں جن کے ٹھوس جواب نہ پا کر لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید وہ کوئی گناہ ہی کر رہے ہیں۔
اگرچہ ان سوالوں کے جوابات میلاد منانے کے قائل علماء دیتے ہیں لیکن کیونکہ مسلکی اختلاف کی وجہ سے آپ کے وہ جواب قبول نہیں ہوں گے اگر ان دلائل کو صحیح مان لیا جائے پھر تو جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے ۔
ہم نے ان مغالطوں کی عقلی دلائل سے وضاحت دینی ہے۔
پہلا بدعت کیا ہے کوئی ایسی چیز جو دین میں نہ ہو اور اسے دین میں شامل کر کہ اسے دین کا حصہ بنا دیا جائے
میلادِ مصطفی ﷺ دین میں کوئی نئی چیز نہیں بلکہ ابتداءِ دین ہے
ہاں میلاد منانے کے لوگوں کے طریقے مختلف ہیں ان میں اگر کوئی طریقہ اسلام سے ٹکراتا ہو تو ناجائز ہو گا لیکن اس کی بنیاد پر آپ اس پورے عمل کو ہی ناجائز نہیں کہہ سکتے۔
ہمارا دین کسی قوم کی ثقافت کو جو اسلام سے ٹکراتی نہ ہوں ان سے منع نہیں کرتا ہمارے ملک میں کسی محسن کا میلاد منانا تو برا نہیں سمجھا جاتا مثلاً ہم قائد اعظم یا علامہ اقبال کا میلاد مناتے ہیں ان کی تعلیمات کو یاد کرتے ہیں وہاں ہم اس اعتراض کا سامنا نہیں کرتے کیونکہ اسے ہم دین کا حصہ نہیں سمجھتے تو اگر اس کائنات کے سب سے بڑے محسن رسول اللہ ﷺ کا میلاد بھی آپ قومی سطح پر منا لیں تو اعتراض ختم ہو جاتا ہے ۔
اگر آپ عرب ممالک میں جائیں تو وہاں بھی وہ لوگ عیدوں کے علاوہ اگر کوئی دن مناتے ہیں تو وہ انکی آزادی کا دن ہوتا ہے اور کوئی مذہبی جماعت اسے بدعت کا نام نہیں دیتی کیونکہ یہ انکی ثقافت کا حصہ ہے اس کو وہ اپنے رسم و رواج کے مطابق مناتے ہیں تو اگر آپ میلاد کو بھی جہالت اور کفر سے آزادی کے دن کے طور پر منائیں تو یہ بدعت کیسے ہوگا۔؟
کچھ لوگ بس درود یا ذکرِ رسول ﷺ کی محافل کا انعقاد کرتے ہیں جس کو غلط کہنا تو کسی بیوقوف کو زیب دیتا ہے کسی اجتماع کی سب سے بڑی دلیل جمعہ کا دن ہے عام دنوں میں ہم لوگ ظہر کی نماز میں چار رکعت ادا کرتے ہیں لیکن کیونکہ جمعہ کو امت کو ایک جگہ اکھٹا ہو کر اپنے کسی بڑے سے دین کے متعلق خطاب سننا ہوتا ہے اس لیے اللہ نے ان فرائض کو آدھا کر دیا اجماع امت ایسا پسندیدہ عمل ہے جس کے لیے اللہ اپنی عبادت میں بھی تخفیف کر دیتا ہے
ذکر رسول ﷺ اور تعلیماتِ قرآن کی محافل تو صحابہ اکرام سے رسول اللہ کی زندگی میں بھی ثابت ہیں (مشكٰوة2278)
لیکن اگر ثابت نہ بھی ہوں تو بھی آپ ﷺ کا ذکر میرے اللہ نے بلند کیا ہے وہ اسے کہیں بھی بلند کر دیتا ہے
اس کے
دوسرا رسول اللہ ﷺ سے اپنا میلاد سالانہ نہیں بلکہ ہفتہ وار بھی ثابت ہے آپ ﷺ سوموار کو اپنی پیدائش والے دن روزہ رکھا کرتے تھے رسول ﷺ سے سوموار کے روزے کا پوچھا گیا آپ ﷺ نے فرمایا اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی اور اسی دن میں پیدا ہوا۔
(صحیح مسلم 2747)
یہ حدیث میلاد کے بدعت والے عقیدے کو رد کرنے کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں اپنے پیدائش کے دن کو ایک خاص اہمیت تو دی۔
یہی سب سے افضل طریقہ ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے اگر کسی دن یادِ رسول ﷺ میں آپ کے معمولات عبادات بڑھ جاتے ہیں تو وہی میلاد ہے۔
تیسرا اعتراض رسول اللہ ﷺ کا وصال ۱۲ ربیع اوّل کو ہوا
رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کے مطابق تاریخ میں بہت سی روایات ملتی ہیں جن میں ۸، ۹ اور ۱۲ کی بھی ملتی ہیں۔ لیکن اگر ۸ یا ۹ کو صحیح مان لیں اور ۱۲ کو وصال مان لیں تو بھی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں ۱۲ کو کبھی میلاد منایا ہی نہیں جاتا رسول اللہ ﷺ کی پیدائش عرب میں ہوئی اس حساب سے پاکستان میں ۱۳ربیع اوّل کو میلاد منایا جاتا ہے۔
اور اسکی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ربیع اوّل کے شروع ہونے کے ساتھ ہی میلاد کی تقریب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لوگ ۱۲ کو ہی نہیں مناتے اور امت میں میلاد بس ربیع اوّل کو ہی نہیں بلکہ کسی بھی مہینے میں منا لیا جاتا ہے۔
اللہ پاک انسان کی نیت کو دیکھتا ہے وہی دلوں کے راز جاننے والا ہے ہم کسی کی نیت کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں اور کسی کو رسول اللہ کا ذکر کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں یہ اعتراضات میری سمجھ سے بالاتر ہیں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے بعد میں وہ کسی بھی مذہب کہ طرف جاتا ہے (البخاری۔ 1359)
آپ اپنے اردگرد مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ بچے صبح نماز کے ٹائم آٹھ جاتے ہیں اور جیسے ہی نماز عشاء ہو جاتی سو جاتے ایک مشاہدہ آپ اور بھی کریں جب بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اسے رسول اللہ ﷺ کی نعت کا بہت شوق ہوتا ہے وہ بہت شوق سے اور محبت سے رسول اللہ کی تعریف کرتا ہے یہ جذبہ آپکو ہر بچے میں ملے گا چاہے اسکے والدین اسطرح کی سرگرمیوں کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں
اگر بچہ فطرتِ اسلام پر ہوتا ہے تو ذکر رسول ﷺ ہی اسلام کی اصل ہے ۔
میلاد کے دن جو جلوس نکالے جاتے ہیں مجھے ہمیشہ ہی ان سے اختلاف رہا تھا لیکن اس کا جواب مجھے ایک ہندوستانی مسلمان سے ملا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہمارے ہمسایہ ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا جاتا ہے مجھے ایک انڈین دوست نے بتایا کہ سارا سال مسلمانوں پر ظلم کرنے والے ہندو جب مسلمان ربیع اوّل کا جلوس نکالتے ہیں یا محرم میں دس محرم کا جلوس نکالتے ہیں تو وہ ڈر کر اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے یہی وہ دن ہوتے جس دن مسلمانوں کا رعب اور دبدبہ ان پر غالب آتا ہے اس کی اس بات نے مجھے جلوس کا قائل کر دیا البتہ اگر جلوس لوگوں کو مشقت میں ڈالے بغیر اپنی منزل تک پہنچایا جائے۔
اور تب ہی شاید مجھے اندازہ ہوا کہ وحدت امت پر اتنا زور کیوں دیا گیا۔
البتہ ہمارے ہاں کچھ علاقوں میں ایسے طریقے مروج ہیں جو حرام ہیں وہ چند لوگوں کے اپنے طریقے ہیں اس کی سربراہی کوئی دینی جماعت نہیں کرتی نہ ہی ان کو کسی اہل علم کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔

تحریر: طیب شبیر

@Tayyib_Shabbir


ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com