نمود عشق

سنت ابراہیمی اور لبرل مافیا

Islamic law

ہر سال اسلامی کیلنڈر کے آخری مہینہ ذی الحج میں تمام مسلم امہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ھوئے قربانی کا فریضہ انجام دیتےھیں۔ اس مہینے کے بارے میں رسول کریم محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اس مہینے کے پہلے دس دن سال کے بہترین ایام ہیں۔ ان کے دوران کی گئی ہر عبادت اور اچھے نیک کام اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں، 
مختلف مستند احادیث کے حوالے سے حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ ”وہ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک بکرا ذبح کرنے کے بعد مجھے دیا .جو میں نے سارا بانٹ دیا صرف بکرے کی ایک دستی اپنے پاس رکھی تاکہ اسے پکا کرحضور اکرم ﷺ کو پیش کروں گی. جب حضور محمد مصطفی ﷺ گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ کچھ بچا ہے تو میں نے انہیں بتایا صرف ایک حصہ بچا ہے۔ باقی سارا میں نے تقسیم کردیا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ عائشہؓ جو تم نے بانٹ دیا وہ سارا بچ گیا اس لئے کہ وہ آخرت کے لئے جمع ہوگیا“
اس حدیث سے ایک بات تو واضح ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں برکت ملتی ہے، اور قربانی غرباء میں تقسیم کرنی چاہیے جو کہ آخرت میں کام آئے گی۔ 
صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا کہ یہ قربانی کیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہرگز یہ نہ فرمایا کہ قربانی ایک عبادت ہے یا یہ میری سنت ہے بلکہ قربانی کی نسبت و تعلق کو اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی طرف قائم کرتےہوئے اسے سنتِ ابراہیمی قرار دیا۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام  اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم  کی تعمیل سے قربان فرمانے جا رہے  تھے تو شیطان نے تین بار آپکو بہکانے کی کوشش کی کہ آپ اپنے فرزند کو قربان مت کریں، لیکن انہوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور سرخرو ہوئے، 
اس واقعہ کو بتانے کا‌مقصد صرف یہ ہے کہ آج کل ایسے  بے شمار چھوٹے چھوٹے شیطان  سوشل میڈیا اور جگہ جگہ نظر آتے ہیں جو خود کو ماڈرن کہتے ہیں اور جانوروں کے حقوق کو بنیاد بنا کر  بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سنت ابراہیمی  ظلم ہے. یہ شیطانی مافیا اپنی اسلام بیزار رویے کی وجہ سے لوگوں  کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے انہیں اپنے جیسا بنانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں، 
جہاں ہم ہر سال سنت ادا کرتے ہیں وہیں لوگوں کو شعور دینے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ کیونکہ مسلمان ہونے کے معنی یہی ہیں کہ اللہ کے حکم کے آگے سر جھکانے والا اپنی آل اولاد اپنا مال و دولت بنا کسی شک و شبہ کے  اللہ کے سپرد کرنے والا
اور انبیا کی سنت کے مطابق اپنی ذندگی گزارنے والا ھے۔ 
قربانی کا‌مقصد‌قرب الہی اور اعتراف بندگی ہے۔
 لیکن آج کے دور میں اکثر روشن خیال لوگ فریضہ قربانی پر اعتراض کرتے نظر آتے ہیں کہ کسی جانور کو قربان کرنے کی بجائے یہ رقم
کسی غریب کو دے دی جائے، یا کسی ضرورت مند کو دے دی جائے،چند دن پہلے ایک فرد نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر جاری کرتے ھوئے لکھا کہ اس سال قربانی بجائے وہ اپنے گھر کے باہر ٹھنڈے پانی کے کولر کا انتظام کررھاھے۔
مگر یہی اعتراضات اگر انکے مہنگے موبائل بڑی گاڑیوں پر کیا جائے تو یہ سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے، ایک جانور جو کہ صرف چالیس یا پچاس ہزار کا ہو گا  اس طبقے کی عام ضروریات زندگی  کے اخراجات سے بھی بہت کم ہے،تیس،چالیس لاکھ کی گاڑی،دو تین لاکھ کا موبائل فون استعمال کرتے وقت انکو نا تو غریب کی بچی کی شادی یاد آتی ھے اور نا  کوئی مستحق نظر اتاھے۔ مگر وہ قربانی کرنے کو غلط سمجھتے ہیں کیونکہ انکا اصل مقصد اسلام اور اسکی تعلیمات سے دور کرنا ہے، یہ خود مسلمان تصور کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام ان کے مطابق ڈھل جائے۔
ایسے لوگوں کی زندگیوں میں شعائر اسلام کی کوئی جگہ نہیں،یہ اسلام بیزار لوگ ناسمجھ لوگ کو بھی اپنے جیسا بنانے کی کوشش کرتے ھیں۔
لیکن انکو اس بات کا اندازہ نہیں کہ یہ خود خسارے میں ھیں۔
اللہ کریم ہمیں تعلیمات اسلامی اور شعائر اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق دیں۔ 
مہر ماجد علی

ضروری نوٹ

الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ  ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com

 

2 Comments

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

  • بہت زبردست لکھا۔
    ماشاءاللہ۔
    یہ نام نہاد دیسی لبرل نے مذاق بنایا ہوا ہے۔

عنوانات

عنوانات