عورت کسی بھی معاشرے کا ستون ہے، اگر ستون اچھا، مضبوط،باکردار ہے تو معاشرہ بھی ویسا ہی ہو گا،اور جب ہم خواتین کو معاشرے کا ایک اہم رکن سمجھتے ہیں تو انکے حقوق یا فرائض میں کوتاہی کیوں کرتے ہیں؟ اگر عورت معاشرے کی بنیاد ہے تو اسے مضبوط کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں، یہاں مضبوط کرنے سے میرا مقصد ہر گز بے حیائی کی اجازت دینا نہیں۔اس تحریر کا موضوع خواتین کے حقوق و فرائض ہیں جن کا حق میں یا آپ نہیں بلکہ ہمارے دین تفویض کئے ہیں، قرآن مجیدمیں اللہ کریم جس طرح مردوں کو مخاطب کرتے ھیں، اسی طرح عورتوں کو بھی ہدایات دیتے اور ان سے مطالبات کرتے ھیں۔ اسلام میں دین کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ جسمانی لحاظ یا دائرہ کار کے لحاظ سے الگ ہیں مگر انسانی لحاظ سے عورت اور مرد برابر ہیں۔
کچھ ذمہ داری اور فرائض اگر مرد کے ہیں تو اسی طرح کچھ فرائض عورتوں کے بھی ہیں اگر کچھ حقوق مردوں کے ہیں تو اسی طرح اسلام عورتوں کو بھی پورا تحفظ اور حقوق فراہم کرتا ہے۔
ابوسعید خدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ فأدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وأحسنَ الیہِنَّ فلہ الجنة(۶)
جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے
اسلام سے پہلے عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا۔ عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کودفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس کے بارے انتہائی سخت الفاظ میں تنبیہ ھے اور۔ فرمایا:
وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ․ بأیِ ذنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: ۸۔۹)
اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا بروز قیامت خواتین کے حقوق غصب کرنے والوں سے سوال کیا جاے گا، جب یہ حقوق اللہ نے دیے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں ان پر زور زبردستی کرنیوالے،آئے دن خبروں میں بے شمار واقعات کا ذکر ہوتا ہے مرد اپنی مردانگی کو قابل فخر سمجھتا ہے مگر یہ کیسا فخر ہے کے چھوٹی چھوٹی بچیوں کو ریپ کر دیا جاتا ہے ، کہیں عزت کے نام پر قتل تو کہیں بیٹی پیدا ہونے پر طلاق یا پھر اولاد نا ہونے پر معاشرے میں ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔
خود کو ایک اچھا مسلمان کہنے والے کیسے بھول جاتے ہیں کہ یہ سب ظلم ہے، جہاں عزت پہ بات آئے تو بیٹیوں سے قربانی مانگی جاتی ہے، پسند کی شادی کا اختیار عورت اور مرد دونوں کو اسلام آخری حد تک دیتا ہے مگر آج بھی ہزاروں ایسی لڑکیاں موجودہیں جنکے سامنے خاندان کی عزت یا صرف اپنی بات کا مان رکھنے کے لیے والدین مرضی کی شادی کرتے ہیں میری نظر میں یہ ظلم ہے اپنا فرض ادا کرنے کے چکر میں بھول جاتے ہیں کہ اس سے اسکی زندگی کا حق چھین رہیں ہیں، اور اکثر اوقات صرف وراثت میں حصہ اس لیے نہیں دیا جاتا کہ یہ تو کسی اور گھر چلی جائے گی تو کیو ں نا جائیداد ہمارے بیٹے کے کام ائے، غیروں کے پاس کیوں جائے، سمجھ سے باہر ہے کہ یہ سب حقوق تو انسان نے بنائے ہی نہیں، اللہ نے بنائے ہیں۔ لیکن اگر آپ انکو اپنے مرضی کے مطابق ڈھالتے ہیں تو آپ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں اللہ کے حکم کے نافرمان یعنی ایک کبیرہ گناہ کے مرتکب۔
مرد پڑھ لکھ جائے تو خود کو سنوار لیتا ہے لیکن اگر عورت پڑھ لکھ جائے علم اور شعور حاصل کر لے تو ایک خاندان سنور جاتا ہے، مگر اپنی ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے اسکی تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ مرد کی، میرے خیال میں شائد عورت کی تعلیم ذیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ بچوں کی تربیت ہمیشہ ماں سے ہوتی ہے، بے شمار حقوق ہیں جن کو ہم نے چھین لیا صرف اسلیے کہ خواتین ہیں کمزور ہیں، مگر یقین جانیے اس گناہ کا کفارہ ادا نہیں کر پائیں گے۔
اسلام نے بعض حالتوں میں عورت کو مردوں سے زیادہ عزت واحترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالمِ دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس نے اس مظلوم طبقہ کو یہ مژدہ جانفزا سنایا:
حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰةِ(۸)
مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔
اسلام خواتین کو حقوق کے ساتھ مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے حقوق یا فرائض کی آڑ میں بے حیائی پھیلانے کی بجائے انکو بتائے گیے طریقے کے مطابق اگر حقوق دینا شروع کر دئیے جائیں تو ہم شائد بہت سی رسوائیوں سے بچ سکتے ہیں، معاشرے کی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ اسکے ستون کو مضبوط کریں تحفظ دیں انکے حقوق دیں، صرف ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے سے معاشرے کی برائیوں اور جہالت ختم نہیں ہو سکتی ، شکر ادا کریں کہ اللہ نے مسلم گھرانوں میں پیدا کیا ہے تو اپنی سوچ اور عمل سے خود کو حقیقت میں اشرف المخلوقات ثابت کریں۔
میں اپنی آج کی بات کو ختم کرنے سے پہلے ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کروں گا۔
ایک موقع پر حضرت عمر نے فرمایا کہ :”تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کی مہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی) حضرت عمرکواس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً (النساء: ۲۰)
جب خدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک پہاڑ بھی دے سکتا ہے تو تم اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔
حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا کُلُّکُمْ أعْلَمُ مِنْ عُمَر
تم سب عمر سے زیادہ علم والے ہو۔
حضرت عمر نے اس عورت کے سوال کے حق کو کہیں ناجائز قرار نہیں دیا یا کسی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔
اس سے یہ بات پتہ چلتی ھے کہ سوال کرنا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں عورت کی رائے کا احترام کرنا ہمارے اسلاف سے ثابت ھے اور اس میں کسی قسم کی توھین نہیں۔
تحریر . مہر ماجد علی
ضروری نوٹ
الف نگری کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں قارئین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں۔ آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔
Email: info@alifnagri.net, alifnagri@gmail.com
Add Comment